توریت کا دیباچہ تعارف


کتابِ مقدس کی تفسیر

توریت کا دیباچہ

Introduction to the Pentateuch

از

وِلیم میکڈونلڈ

اِس تفسیر کی مدد سے آپ کلامِ خدا کے مندرجات کو زیادہ صفائی اور آسانی سے سمجھ سکتے ہیں۔ یہ بڑے چُست، مودَّب، پُر خلوص، سنجیدہ اور عالمانہ انداز میں لکھی گئی ہے۔ اِس کا اِنتخاب آپ کے شخصی گیان دھیان اور گروہی مطالعۂ بائبل کے لئے بہت مفید ثابت ہو گا


Believer’s Bible Commentary

by

William MacDonald

This is a Bible commentary that makes the riches of God’s Word clear and easy for you to understand. It is written in a warm, reverent, and devout and scholarly style. It is a good choice for your personal devotions and Bible study.

© 1995 by William MacDonald, Believer’s Bible Commentary
Christian Missions in Many Lands, Inc.
PO Box 13, Spring Lake, NJ 07762
USA
— All Rights Reserved —


مقدمه

’’دورِ حاضر کی تنقید نے کتابِ مقدس کی ہر ایک کتاب پر حملہ کر کے اِس کی اہمیت کو کم کرنے کی کوشش کی ہے‏، لیکن توریت کی کتاب پر تو بہت دِیدہ دلیری سے حملہ کیا گیا ہے۔ آئیے ہم اِس وسیع‏، گہری اور فیصلہ کن حقیقت پر قائم رہیں کہ مسیح جسے کامل خدا اور کامل اِنسان مانتے ہیں نے اِن سب کی سند پیش کی ہے۔‘‘ (‏وِلیم کیلی)‏

’’توریت خدا کے سارے کلام کا ایک لازمی تعارف ہے۔ اِس میں اُس اَمر کا آغاز ہے جس کا بعد ازاں اِنکشاف کیا گیا۔‘‘ (‏Samuel Ridout)‏

موسیٰ کی کتابوں کی اِنفرادی طور پر تشریح کرنے سے پہلے ہم توریت کے بارے میں مجموعی طور پر چند حقائق پیش کریں گے۔ 

۱۔ توریت کے نام

یہودی توریت کو ’تورہ‘ (‏عبرانی مطلب شریعت یا تعلیم)‏ کہتے ہیں اور اِسے بائبل کا سب سے اہم حصہ تصور کرتے ہیں۔ 

توریت کا دوسرا عام نام ’’موسیٰ کی کتابیں‘‘ ہے۔ یورپ کے بعض ممالک میں اِن کتابوں کو پیدائش اور خروج وغیرہ کے نام سے نہیں پکارتے بلکہ ’موسیٰ کی پہلی کتاب‘‏، ’موسیٰ کی دوسری کتاب‘ وغیرہ کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔ 

یہودی عموماً عبرانی متن میں پہلے چند الفاظ سے اپنی کتابوں کو موسوم کرتے ہیں۔ مثلاً پیدائش کو ’’بریشیت‘‘ (‏ابتدا میں)‏ کہا گیا ہے۔

۲۔ توریت کے مضامین

توریت پانچ کتابوں پر مشتمل ہے۔ تفصیل درج ذیل ہے۔

الف۔ پیدائش

پیدائش توریت (‏اور بائبل)‏ کی پہلی کتاب ہے۔ اِس میں کائنات‏، زمین‏، اِنسان‏، شادی‏، گناہ‏، سچے مذہب‏، اقوام‏، مختلفزبانوں اور برگزیدہ لوگوں کا ماخذ بیان کیا گیا ہے۔ پہلے گیارہ ابواب میں اِنسانی تاریخ کو وسیع طور پر پیش کیا گیا ہے‏، لیکن باب ۱۲ سے ۵۰ تک کہانی ابرہام‏، اِضحاق‏، یعقوب اور اُس کے بیٹوں تک محدود ہو جاتی ہے۔

ب۔ خروج

اِس میں بیان کیا گیا ہے کہ کیسے چار سو سال میں ابرہام کا خاندان مصر میں فرعون کی جبری مشقت کے ماتحت ایک قوم بن گیا اور کیسے موسیٰ کی معرفت اُنہیں مخلصی ملی۔ باقی ماندہ کتاب میں موسوی شریعت اور خیمۂ اِجتماع کا تفصیلی بیان ہے۔

ج۔ احبار

احبار کی کتاب لاویوں کی راہنمائی کے لئے ہے۔ اِس میں پاک خدا سے اُس دَور کے گنہگار اِنسان کی رفاقت کے لئے ضروری رسومات کا بیان ہے۔ اِس کتاب میں مسیح کی قربانی کی علامات موجود ہیں۔ 

د۔ گنتی

گنتی جیسا کہ نام سے ظاہر ہے‏، اِس میں لوگوں کی مردُم شماری کا ذکر ہے۔ ایک کا کتاب کے شروع میں اور دوسری کا کتاب کے آخر میں ذکر ہے۔ اِس کتاب کا عبرانی نام ’’بیابان میں‘‘ زیادہ واضح ہے کیونکہ گنتی کی کتاب میں اِسرائیل کے بیابانی سفر میں تاریخی واقعات کے تجربات کا ذِکر ہے۔ 

ہ۔ اِستثنا

اِستثنا کے لئے یونانی لفظ کا مطلب ’دوسری شریعت‘ ہے۔ یہ ایک نئی نسل کو دوبارہ شریعت بتانے سے کہیں زیادہ ہے‏، گو یہ پہلو بھی موجود ہے۔ یہ کتاب بعد کی تواریخی کتاب سے رابطہ قائم کرواتی ہے کیونکہ یہ موسیٰ کی موت اور اُس کے جانشین یشوع کا ذکر کرتی ہے۔ 

گرفتھ تھامس (‏Griffith Thomas)‏حسبِ معمول اپنے وضاحتی اور جامع انداز میں موسیٰ کی کتابوں کے مضامین کا خلاصہ اِن الفاظ میں بیان کرتا ہے:‏

’’ توریت کی پانچ کتابیں دُنیا میں الٰہی مذہب کے تعارف کا بیان کرتی ہیں۔ہر ایک کتاب خدا کے منصوبے کا ایک پہلو پیش کرتی ہے اور وہ باہم ایک حقیقی اتحاد قائم کرتی ہیں۔ پیدائش میں مذہب کے آغاز اور خد اکے برگزیدہ لوگوں کو وسیلے کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ خروج کی کتاب میں خدا کے لوگوں کا ایک قوم کے طور پر‏، اور اُس کے ساتھ خدا کے تعلقات کا بیان کیا گیا ہے۔ احبار کی کتاب اُن مختلف طریقوں کو ظاہر کرتی ہے جن سے یہ تعلقات قائم رہ سکتے ہیں۔ گنتی کی کتاب میں بیان کیا گیا ہے کہ کیسے قوم کو منظم کیا گیا کہ وہ موعودہ ملک میں الٰہی مذہب کی زندگی کا آغاز کرے۔ اِس کتاب میں قوم کی ناکامی اور نتیجے میں از سرِ نو تنظیم میں التوا کا ذکر ہے۔ اِستثنا میں ظاہر کیا گیا ہے کہ قوم موعودہ ملک کی سرحد پر اِس میں داخل ہونے کے لئے کیسے تیار تھی۔‘‘

۳۔ توریت کی اہمیت

چونکہ سارے پرانے عہدنامے‏، درحقیقت ساری بائبل کی بنیاد اِن پانچ کتابوں پر ہے‏، اِس لئے توریت کو جتنی بھی اہمیت دی جائے کم ہے۔ اگر عقلیت پرست غیر ایمان دار علما اِن کتابوں کے مستند ہونے اور اُن کی صحت پر ایمان کی جڑوں کو کھوکھلا کرتے ہیں تو یہودیت کا آغاز بے یقینی کا شکار ہو جائے گا۔ اِن حملوں سے ہمارا ایمان متاثر نہیں ہوتا کیونکہ نئے عہدنامے میں ہمارے خداوند نے بذاتِ خود موسیٰ کی کتابوں کو حقیقی اور قابلِ اعتماد تصور کرتے ہوئے اُن سے اِقتباسات پیش کئے۔

ڈاکٹر میرِل اُنگر (‏Merrill Unger)‏اِس حقیقت کو بڑی صفائی سے بیان کرتے ہیں:‏

’’خدا کی ساری مکاشفاتی حقیقت اور خدا کے نجات بخش منصوبے کی بنیاد توریت پر ہے۔ اگر یہ بنیاد قابلِ اِعتماد نہیں تو ساری بائبل قابلِ اعتماد نہیں ہے۔‘‘

۴۔ توریت کا مصنف

اِبتدائی مسیحیوں کے ایام میں چند ایک نے عزرا کو توریت کا مصنف تسلیم کیا‏، لیکن سوائے اُن کے تمام راسخ الاعتقاد یہودی اور مسیحی عرصۂ دراز سے اور اَب بھی موسیٰ ہی کو توریت کا مصنف مانتے ہیں۔

الف۔ موسیٰ توریت کا مصنف ہے

’’دستاویزی نظریہ‘‘ اِس بات کا اِنکار کرتا ہے کہ موسیٰ توریت کا مصنف ہے۔ اِس نظریے کا تجزیہ کرنے سے قبل اِس کی مثبت شہادتوں پر غور کریں کہ موسیٰ ہی توریت کا مصنف ہے۔ 

(‏۱)‏ موسیٰ کی قابلیت

اُنیسویں صدی کے ایک جرمن نقاد نے موسیٰ کے توریت کا مصنف ہونے سے اِنکار کیا تو اُس نے یہ دلیل دی کہ اُس وقت تحریر کی ایجاد نہیں ہوئی تھی (‏اکثر لوگوں کا اُس وقت یہی خیال تھا)‏ لیکن علمِ آثارِ قدیمہ نے ثابت کیا ہے کہ موسیٰ قدیم عبرانی تحریر یا تو مصری عمودی خط یا اکادی میخی خط میں لکھ سکتا تھا۔ بے شک اعمال ۷:‏۲۲ نے علمِ آثارِ قدیمہ کے اِس ثبوت سے کہیں پہلے اِس اَمر کی تصدیق کر دی تھی کہ ’’موسیٰ نے مصریوں کے تمام علوم کی تعلیم پائی۔‘‘ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ ’’موسیٰ نے توریت کو لکھا‏،‘‘ تو اِس میں یہ گنجائش موجود ہے کہ اُس نے یہ کتاب لکھتے وقت پہلے سے موجود دستاویزات سے بھی مواد حاصل کیا۔ ہم یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ عبرانی خط کی موجودہ شکل‏، کئی صدیوں کے دوران تبدیل شدہ خط کا نتیجہ ہے۔ تاہم یہ کہنا کہ توریت کو موسیٰ لکھنے کے قابل تھا‏، اِس بات کا ثبوت نہیں کہ اُس نے اِسے واقعی تحریر کیا۔ تو بھی یہودی مذہب کے بانی ہونے کی حیثیت سے یہ صاف واضح ہے کہ اُس نے آئندہ نسلوں کے لئے خدا کے مکاشفے کی ایک مستقِل دستاویز تیار کی ہو گی جیسا کہ خدا نے اُسے حکم بھی دیا تھا۔ 

(‏۲)‏ توریت کا اپنا دعویٰ

توریت کے متن سے ظاہر ہوتا ہے کہ بعض موقعوں پر خدا نے اُسے لکھنے کا واضح حکم دیا۔ دیکھیں خروج ۱۷:‏۱۴؛ ۲۴:‏۴؛ ۳۴:‏۲۷؛ گنتی ۳۳:‏۲؛ اِستثنا ۳۱:‏۱۹۔

(‏۳)‏ بائبل کے دعوے

خدا کے کلام کے باقی حصوں میں تسلیم کیا گیا ہے کہ موسیٰ ہی توریت کا مصنف ہے‏، مثلاً یشوع ۱:‏۷؛ ۱۔سلاطین ۲:‏۳؛ لوقا ۲۴:‏۴۴ اور ۱۔کرنتھیوں ۹:‏۹۔

(‏۴)‏ مسیح کی شہادت

مسیح خداوند نے تسلیم کیا کہ موسیٰ ہی توریت کا مصنف ہے۔ چنانچہ یہ حقیقت ہم ایمان داروں کے لئے اِس معاملے کو طے کر دیتی ہے۔ یہ بھی ایک نظریہ ہے کہ یسوع اپنی اِنسانیت میں سائنس اور تاریخ سے لاعلم تھا‏، یا کہ وہ بہتر طور پر جانتا تھا‏، لیکن اپنے آپ کو اپنے لوگوں کی لاعلمی اور مفادات سے ہم آہنگ کر لیا۔ لیکن ایسا نظریہ کسی بھی ایمان دار کے لئے قابلِ قبول نہیں ہے۔ 

(‏۵)‏ علمِ آثارِ قدیمہ اور توریت

اکثر آزاد خیال نقاد بعض روایات‏، ناموں اور تواریخی اور ثقافتی تفصیلات کے بارے میں یہ نظریہ پیش کرتے ہیں کہ اِن تفصیلات کا موسیٰ کے بعد کے دَور سے تعلق ہے‏، لیکن اَب یہ ثابت ہو چکا ہے کہ اِن کا تعلق موسیٰ کے دَور سے صدیوں پہلے سے ہے۔ گو آثارِ قدیمہ سے ’’ثابت‘‘ نہیں ہوتا کہ موسیٰ توریت کا مصنف ہے البتہ اِس کی شہادت روایتی نظریے سے بہت حد تک ہم آہنگ ہے بہ نسبت اِس نظریے کے کہ بہت صدیوں بعد مؤلف اِن تفصیلات کو جانتے تھے اور اُنہیں بڑی خوبصورتی سے ترتیب دے دیا۔ 

ب۔ دستاویزی مفروضے

۱۷۵۳ء میں ایک فرانسیسی ڈاکٹر جین آسٹرک (‏Jean Austruc)‏نے یہ نظریہ پیش کیا کہ موسیٰ نے پیدائش کی کتاب کو دو دستاویزات کی مدد سے ترتیب دیا۔ وہ حصے جن میں خدا کے لئے لفظ ’یہوواہ‘ استعمال کیا گیا‏، ایک ماخذ سے لئے گئے اور جن میں الوہیم استعمال کیا گیا‏، دوسرے ماخذ سے حاصل کئے گئے۔ اِن مواخذ کا نام اُس نے علی الترتیب ’’J‘‘ اور ’’E‘‘ رکھا۔ 

بعد ازاں آزاد خیال علما نے اِس نظریے کو مزید آگے بڑھایا۔ با لآخر اُنہوں نے اپنے مفروضے میں مزید مواخذ کو شامل کر ڈالا جن کا تعلق موسیٰ کے دَور کے بہت بعد کے دَور سے ہے۔ دیگر مفروضہ دستاویزات ’’D‘‘ (‏اِستثنا)‏ اور ’’P‘‘ (‏کہانتی)‏ ہیں۔ چنانچہ یہ نظریہ پیش کیا گیا کہ ۹ اور ۱۰ ق م میں مختلف مواخذ کو ترتیب دے کر توریت کی کتاب تیار کی گئی۔ چنانچہ اِس مفروضے کو ’’JEDP‘‘ نظریے کا مقبولِ عام نام دیا گیا۔ 

بہت سی باتوں کی بنا پر یہ مفروضے اُنیسویں صدی کے علما کے لئے بہت دلکش تھے۔ سب سے پہلے تو یہ ڈارون (‏Darwin)‏کے نظریۂ اِرتقا سے بہت زیادہ متفق تھا‏، کیونکہ اُس وقت علم الحیوانات کے شعبے کے علاوہ اِس کا دیگر شعبوں پر بھی اِطلاق کیا جاتا تھا۔ اور اُس دَور کی مخالفِ فوق الفطرت کی روح بائبل کو صرف اِنسانی معیار تک محدود کرنے میں فرحت محسوس کرتی تھی۔ سوم‏، اُس دَور کی اِنسان پرستی کا رُجحان یہ تھا کہ الٰہی مکاشفے کے بجائے‏، اِسے اِنسانی کاوشوں کے توڑ جوڑ سے تعبیر کیا جائے۔ 

اِس مختصر سے تعارف میں ہم اِس نظریے کے خلاف صرف چند ایک اہم نکات کا ذکر کر سکتے ہیں۔ 

(‏۱)‏ نسخے کی شہادت کا فقدان

’’JEDP‘‘ میں مجوزہ تالیف کے کام کے لئے نسخے سے کوئی شہادت پیش نہیں کی گئی۔ 

(‏۲)‏ متصادم نظریات

یہ علما توریت کو بہت مختلف انداز سے حصوں میں تقسیم کرتے ہیں جو اُن کی اِنتہا پسندی اور ٹھوس شہادت کی کمی کی نشان دہی کرتی ہے۔

(‏۳)‏ علمِ آثارِ قدیمہ

آثارِ قدیمہ سے توریت کی تحریر‏، روایات‏، مذہبی علم کی تصدیق ہوتی ہے کہ یہ بہت قدیم ہے اور اِس کا تعلق بعد کے دَور سے نہیں ہے جیسا کہ ویل ہاسن نظریہ پیش کرتا ہے۔

(‏۴)‏ زبان دانی

توریت میں موجود شخصی نام اور محاورات جنہیں بعد کے زمانے کا قرار دیا گیا وہ موسیٰ کے دَور سے بہت پہلے کے مواخذ میں پائے جاتے ہیں۔

(‏۵)‏ توریت کی ہم آہنگی

اپنے مضامین کے لحاظ سے موسیٰ کی پانچ کتابوں میں بڑا اِتحاد اور ہم آہنگی ہے۔ اور یہ بات اِن کتابوں کے ماخذ کے لئے ارتقائی کانٹ چھانٹ کے بالکل متضاد ہے۔

(‏۶)‏ روحانی دیوالیہ پن

با لآخر روحانی نقطۂ نظر سے دستاویزی نظریات اِن کتابوں میں خوبصورت اور عظیم سچائیوں کی خاکِ پا کو بھی نہیں پہنچ سکتے۔ اگر یہ نظریات دُرست ہوتے‏، تو ڈاکٹر اُنگر کے مطابق توریت کی کتاب ’’غیر مستند‏، غیر تاریخی اور غیر معتبر ہوتی‏، اور یہ الٰہی کام نہیں بلکہ اِنسانی تخلیق ہوتا۔‘‘

۵۔ توریت کا سنِ تحریر

توریت کے مضامین میں تخلیقِ کائنات تک کا ذکر ہے‏، لیکن اِنہیں ہزاروں سال بعد تحریری صورت میں بیان کیا گیا۔ ظاہر ہے کہ اِس کی تحریر کا تعین اِس اَمر سے ہوتا ہے کہ کس نے اِسے تحریر کیا۔ 

آزاد خیال علما اِس تحریری کام کے مرحلہ وار نظریے کو پیش کرتے ہیں۔ نام نہاد ’’J‘‘ دستاویز کی تاریخ تقریباً ۸۵۰ ق م ہے اور ’’E‘‘ دستاویز کا تقریباً ۷۵۰ ق م‏، اور ’’D‘‘ دستاویز کا تقریباً ۶۲۱ ق م اور ’’P‘‘ دستاویز کا تقریباً ۵۰۰ ق م کا وقت متعین کیا گیا ہے۔

راسخ الاعتقاد علما کا خیال ہے کہ توریت ۱۵۰۰ ق م میں خروج کے دَور میں لکھی گئی۔ بعض علما اِس کے ڈیڑھ صدی بعد کے دَور کا تعین کرتے ہیں۔

بائبل کے مواد کے مطابق غالباً سب سے بہترین تاریخ ۱۴۵۰۔۱۴۱۰ ق م کے درمیان ہے۔ مزید تفصیلات کے لئے تفسیر الکتاب کی اِنفرادی کتابیں ملاحظہ فرمائیے۔

۶۔ نتیجہ

ہم توریت کے دیباچے کے لئے کینیڈا کے عہدِ عتیق کے ایک اہم عالم (‏Harrison)‏ کے خیالات پیش کرتے ہیں:‏

’’ توریت کی پانچ کتابیں اپنے مضامین کے لحاظ سے ہم آہنگ ہیں اور اِسے مختلف اوقات میں علیٰحدہ علیٰحدہ ترتیب نہیں دیا گیا۔ اِس مستند تاریخی پس منظر میں بیان کیا گیا ہے کہ خدا نے کس طرح اپنے آپ کو اِنسانوں پر ظاہر کیا اور بنی اِسرائیل کو دُنیا اور اِنسانی تاریخ میں خاص خدمت اور گواہی کے لئے چنا۔ موسیٰ کا اِس کتاب کی تشکیل میں ایک نمایاں کردار ہے اور اِسرائیل کی ترقی میں اُسے بلند مقام حاصل ہے اور یہودی اور مسیحی دونوں قدیم شریعت کے عظیم درمیانی کی حیثیت سے اُس کی تعظیم کرتے ہیں۔‘‘