پرانے عہدنامے کا تعارف


کتابِ مقدس کی تفسیر

پرانے عہدنامے کا تعارُف

Introduction to the Old Testament

از

وِلیم میکڈونلڈ

اِس تفسیر کی مدد سے آپ کلامِ خدا کے مندرجات کو زیادہ صفائی اور آسانی سے سمجھ سکتے ہیں۔ یہ بڑے چُست، مودَّب، پُر خلوص، سنجیدہ اور عالمانہ انداز میں لکھی گئی ہے۔ اِس کا اِنتخاب آپ کے شخصی گیان دھیان اور گروہی مطالعۂ بائبل کے لئے بہت مفید ثابت ہو گا


Believer’s Bible Commentary

by

William MacDonald

This is a Bible commentary that makes the riches of God’s Word clear and easy for you to understand. It is written in a warm, reverent, and devout and scholarly style. It is a good choice for your personal devotions and Bible study.

© 1995 by William MacDonald, Believer’s Bible Commentary
Christian Missions in Many Lands, Inc.
PO Box 13, Spring Lake, NJ 07762
USA
— All Rights Reserved —


’’ہم پرانے عہدنامے کی سب سے اعلیٰ تصدیق بذاتہٖ مسیح خداوند سے اخذ کرتے ہیں۔ جسے نجات دہندہ نے ضروری تصور کیا‏، لازم ہے کہ نجات یافتہ لوگ بھی اِس کی اہمیت کو تسلیم کریں۔‘‘ (‏پروفیسر جی۔اے۔ سمتھ)‏ 

۱۔ پرانے عہدنامے کی وجۂ تسمیہ 

پرانے عہدنامے کا گہرے طور پر مطالعہ کرنے یا مقابلتاً کسی مخصوص کتاب کے کسی مختصر حصے کی تفسیر سے پہلے‏، اِس مقدس کتاب یعنی ’پرانے عہدنامے‘ سے متعلق چند عام حقائق کا مختصر خاکہ مفید ثابت ہو گا۔

’عہد‘ عبرانی لفظ ’بیریتھ‘ کا ترجمہ ہے۔ نئے عہدنامے میں ’عہد‘ یونانی لفظ ’دیاتھکے‘ کا ترجمہ ہے۔ کتابِ مقدس کا عنوان ’عہد‘ نہایت موزوں ہے کیونکہ یہ کتاب خدا اور اُس کے لوگوں کے مابین عہد اور معاہدہ ہے۔

اِسے نئے عہدنامے کے مقابلے میں ’پرانا‘ عہدنامہ کہا گیا ہے۔ بعض لوگ ’پرانا‘ سے یہ معانی اخذ کرتے ہیں کہ اِس میں سیکھنے کے لئے ایسی کوئی قابلِ قدر بات نہیں ہے۔ لیکن یہ روحانی‏، تواریخی اور ثقافتی نقطۂ نظر سے بہت بڑی غلطی ہو گی۔ دونوں عہدنامے خدا کا اِلہام ہیں اور یہ تمام مسیحیوں کے لئے فائدہ مند ہیں۔ مسیح کا شاگرد جب متعدد بار بائبل کے اِس حصے کی طرف رجوع کرتا ہے جو خصوصی طور پر ہمارے خداوند‏، اُس کی کلیسیا اور اپنے شاگردوں کے طرزِ زندگی کے لئے اُس کی خواہش کے بارے میں بتاتا ہے‏، تو پرانے عہدنامے کی اہمیت ایمان دار کے لئے اَور بھی اُجاگر ہو جاتی ہے۔ 

پرانے اور نئے عہدنامے میں تعلق کو مقدس اوگسطین نے بڑی خوبصورتی سے بیان کیا ہے:‏

نیا پرانے میں پوشیدہ ہے
اور پرانا نئے میں منکشِف ہوتا ہے۔

۲۔ پرانے عہدنامے کی فہرستِ مسلّمہ

یونانی لفظ kanon کا مطلب ہے ’پیمانہ‘ جس سے کسی چیز کو ماپا جاتا ہے۔ پرانے عہدنامے کی مسلّمہ فہرست‏، الہامی یعنی مستند کتابوں کا مجموعہ ہے۔ اِن کتابوں کو بنی اِسرائیل کے قدیم روحانی قائدین نے تسلیم کیا۔ ہم کیسے جانتے ہیں کہ صرف اِنہی کتابوں کو مسلمہ فہرست میں شامل ہونا چاہئے یعنی یہ ۳۹ کتابیں اِس میں شامل ہوں؟ چونکہ اَور بھی مذہبی تحریریں (‏جن میں بدعتی کتب بھی شامل تھیں)‏ بہت پہلے موجود تھیں‏، اِس لئے ہمیں کیسے یقین ہے کہ یہی صحیح کتابیں ہیں؟

اکثر کہا جاتا ہے کہ ایک یہودی کونسل نے پہلی صدی عیسوی میں مسلمہ فہرست مرتب کی۔ درحقیقت جب یہ کتابیں لکھی گئی تھیں اُسی وقت سے مستند اور مسلمہ کتب تھیں۔ دیندار اور صاحبِ اِمتیاز یہودیوں نے شروع سے ہی الہامی کتابوں کو تسلیم کیا۔ تاہم کبھی کبھی بعض حلقوں میں چند ایک کتابیں‏، مثلاً آستر‏، واعظ اور غزل الغزلات متنازعہ رہیں۔

یہودی پرانے عہدنامے کو تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں:‏ توریت‏، انبیا (‏انبیائے قدیم اور انبیائے مابعد)‏ اور نوشتے۔

اِس سلسلے میں مختلف نظریات ہیں۔ مثلاً دانی ایل کی کتاب جو نبوت کی کتاب ہے‏، اِسے انبیا کے بجائے نوشتوں میں کیوں شامل کیا گیا؟ ایک عام آزاد خیال نظریہ یہ ہے کہ دانی ایل کی کتاب دیر سے لکھی گئی اِس لئے اِسے دوسرے حصے میں شامل نہیں کیا جا سکتا تھا کیونکہ جب دانی ایل نے لکھا تو یہ پہلے ہی ’بند‘ کیا جا چکا تھا (‏دیکھیں دانی ایل کا تعارف)‏۔ راسخ الاعتقاد نظریے کے حامل لوگ دانی ایل کی کتاب کو تیسرے حصے میں شامل کرتے ہیں‏، کیونکہ اپنے کام اور عہدے کے لحاظ سے وہ نبی نہیں بلکہ سیاست دان تھا‏، لیکن خدا نے اُسے نبوت لکھنے کے لئے استعمال کیا۔ ڈاکٹر میرِل ایف۔ اُنگر نے کہا کہ سہ گُنا تقسیم کا تعین انبیا کی حیثیت سے کیا گیا ہے۔ 

ہمارے نزدیک یہی صحیح نظریہ ہے۔ پرانے عہدنامے کی کتابیں اِسی حتمی مقصد کے تحت لکھی گئیں کہ اُنہیں مقدس اور الہامی تسلیم کیا جائے۔ چنانچہ وقتِ تحریر ہی سے اِن پر مستند ہونے کی مُہر ثبت تھی۔ یہ سہ گُنا تقسیم مصنفین کی حیثیت کی وجہ سے ہے نہ کہ الہامی درجے‏، مضامین اور تواریخ کے فرق کی بنا پر۔

جس کونسل نے ہماری مسلمہ فہرست کو تسلیم کیا‏، وہ دراصل اِس اَمر کی تصدیق کر رہے تھے جسے عموماً صدیوں سے تسلیم کیا جا چکا تھا۔ 

ہم مسیحیوں کے لئے یہ ایک اہم حقیقت ہے کہ ہمارے خداوند نے اکثر اقتباسات پیش کئے اور پرانے عہدنامے کے تینوں حصوں کی کتابوں کو مستند تسلیم کر کے تینوں سے متعدد اِقتباسات پیش کئے۔ مثلاً دیکھیں‏، لوقا ۲۴:‏ ۲۷ اور ۴۴۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مسیح خداوند نے کبھی بھی اپاکرفا کی کتابوں میں سے اِقتباس پیش نہ کیا۔ 

۳۔ اپاکرفا

مشرقی راسخ الاعتقاد‏، رومن کیتھولک اور پروٹسٹنٹ کلیسیا کے بائبل کے طلبہ سب نئے عہدنامے کی ۲۷ کتابوں کی مسلمہ فہرست کو عموماً اِسی ترتیب اور اِنہی ۲۶۰ ابواب کے تحت تسلیم کرتے ہیں۔ لیکن پرانے عہدنامے کے سلسلے میں صورتِ حال قدرے پیچیدہ ہے۔

پروٹسٹنٹ اور یہودی پرانے عہدنامے کی فہرست پر متفق ہیں‏، لیکن مشرقی راسخ الاعتقاد اور رومن کیتھولک تاریخ اور نظم کی کئی یہودی کتابوں کو تسلیم کرتے ہیں جنہیں وہ ثانوی مسلمہ فہرست کا نام دیتے ہیں اور یہودی اور پروٹسٹنٹ اُنہیں اپاکرفا بمعنی ’’پوشیدہ‘‘ کتابیں کہتے ہیں۔

پروٹسٹنٹ اُردو ترجمے کی ۳۹ کتابوں میں بالکل وہی مواد ہے جو عبرانی بائبل کی چوبیس کتابوں میں موجود ہے۔ عددی اِختلاف‏، یہودی ایڈیشنوں میں کئی مجموعوں کی بنا پر ہے۔ مثلاً سموئیل‏، سلاطین اور تواریخ کی چھے کتابوں کو یہودی ایڈیشن میں تین کتابیں ظاہر کیا گیا ہے اور انبیائے اصغر کو ’’بارہ کی کتاب‘‘ کے نام سے موسوم کیا گیا ہے اور اِسے ایک کتاب کے طور پر شمار کیا گیا ہے۔ 

یہودیوں نے اَور بھی کئی مذہبی کتابیں لکھیں‏، یہاں تک کہ ان میں سے کئی عبرانی زبان میں بھی تحریر نہ کی گئیں۔ وہ اُنہیں الہامی اور مستند تصور نہیں کرتے تھے۔ ان میں بعض ایک مثلاً ۱‏،۲۔ مکابیین کو پرانے اور نئے عہدنامے کے درمیانی عرصے کی تاریخ کے لئے اہم اور مفید تصور کیا جاتا ہے اور بعض ایک مثلاً ’’بعل اور اژدہا‘‘ کو غیر مستند اور غیر مُسلَّمہ حیثیت سے پڑھا جا سکتا ہے۔

اِن یہودی کتابوں میں سب سے کم اہمیت کی حامل ’’جعلی کتابیں‘‘ ہیں اور اِن سے قدرے بہتر کتابوں کو اپاکرفا کی کتابیں کہا گیا ہے۔ 

بعض قدیم یہودیوں اور مسیحیوں‏، خاص کر مصر کے غناسطی فرقے نے وسیع مسلمہ فہرست کو تسلیم کیا‏، جن میں یہ کتابیں بھی شامل تھیں۔

جب مقدس جیروم کو روم کے بشپ نے اپاکرفا کی کتابوں کا لاطینی میں ترجمہ کرنے کے لئے کہا تو اُس نے اُس کے خلاف اِحتجاج کرتے ہوئے ہی یہ کام سرانجام دیا۔ وجہ یہ تھی کہ وہ عبرانی متن سے بخوبی واقف تھا اور یہ کتابیں یہودی مسلمہ فہرست میں مستند حصہ نہیں تھیں۔ گو جیروم‏، اُن کی ثانوی حیثیت کا قائل تھا‏، اُس نے ولگاتا (‏لاطینی ترجمہ)‏ کے لئے اِن کتابوں کا ترجمہ کر دیا۔ آج کل بھی وہ رومن کیتھولک تراجم میں شامل ہیں۔

قابلِ غور بات یہ ہے کہ رومن کیتھولک کلیسیا نے بھی اپاکرفا کو اِصلاحِ کلیسیا کے مخالف دَور (‏۱۵۰۰ء)‏ تک فہرستِ مسلمہ میں شامل نہ کیا تھا۔ اُس وقت ویٹی کن نے اِسے اِس لئے منظور کیا‏، کیونکہ اُن کی بعض ایک تعلیمات‏، مثلاً مُردوں کے لئے دعا کرنے کا ذکر اپاکرفا میں پایا جاتا ہے۔ درحقیقت اپاکرفا کی کتابوں میں زیادہ تر یہودی اَدب اور تاریخ ہے اور اِس کا مسیحی عقائد سے براہِ راست تعلق نہیں ہے۔ گو یہ الہامی نہیں‏، تاہم عبرانی فہرستِ مسلمہ کی الہامی کتابوں کو تسلیم کرنے کے بعد ثقافتی اور تواریخی نقطۂ نظر سے اِن کتابوں کا مطالعہ کافی حد تک مفید ہے۔ 

۴۔ مصنف

روح القدس پرانے عہدنامے کا اِلٰہی مصنف ہے۔ اُس نے موسیٰ‏، عزرا‏، یسعیاہ اور گمنام مصنفین کو اپنی راہنمائی میں لکھنے کی تحریک دی۔ پرانے عہدنامے کی کتابیں کیسے لکھی گئیں‏، اِس سوال کو صحیح اور بہتر طریقے سے سمجھنے کے لئے ’’دوہرے مصنف‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ پرانا عہدنامہ نہ تو جزوی طور پر اِنسانی اور نہ ہی جزوی طور پر الٰہی ہے‏، بلکہ یہ بیک وقت کُلی طور پر اِنسانی اور کُلی طور پر الٰہی ہے۔ الٰہی عنصر نے اِنسانی عنصر کو کسی طرح کی غلطی سے محفوظ رکھا۔ اور اِس کا نتیجہ یہ ہے کہ یہ اپنے اصلی نسخوں کے لحاظ سے لاخطا کتاب ہے۔ 

تحریری کلام کے لئے ایک اچھی تمثیل‏، زندہ کلام ہمارے خداوند مسیح کی دوہری فطرت ہے۔ وہ جزوی طور پر اِنسان اور جزوی طور پر خدا نہیں ہے (‏جیسا کہ یونانی فرضی کہانیوں میں بتایا جاتا ہے)‏‏، بلکہ وہ بیک وقت کامل خدا اور کامل اِنسان ہے۔ اُس کی الٰہی فطرت نے اُس کی اِنسانی فطرت کو کسی طرح کی غلطی اور گناہ سے محفوظ رکھا۔ 

۵۔ تاریخیں

نیا عہد نامہ صرف نصف صدی یعنی ۵۰۔۱۰۰ عیسوی میں لکھا گیا۔ لیکن پرانے عہدنامے کی تکمیل کے لئے کم از کم ایک ہزار سال (‏۱۴۰۰ ق م ۔۴۰۰ ق م)‏ کا عرصہ لگا۔ سب سے پہلی کتابیں جو لکھی گئیں یا تو توریت تھی (‏تقریباً ۱۴۰۰ ق م)‏ یا پھر ایوب کی کتاب (‏تاریخ نامعلوم ہے لیکن اِس کے مضامین سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ شریعت دئیے جانے سے قبل لکھی گئی)‏۔

اِن کے علاوہ کچھ کتابیں اسیری سے قبل لکھی گئیں (‏تقریباً ۶۰۰ ق م)‏‏، مثلاً یشوع سے سموئیل تک۔ کچھ اسیری کے دوران مثلاً (‏نوحہ اور حزقی ایل)‏ اور کچھ اسیری کے بعد مثلاً تواریخ‏، حجی‏، زکریاہ اور ملاکی (‏تقریباً ۴۰۰ ق م)‏۔

۶۔ فہرست

پرانے عہدنامے کی فہرست کی ترتیب جو پروٹسٹنٹ تراجم میں پیش کی گئی‏، اُس کا خلاصہ یوں ہے:‏

توریت
پیدائش سے اِستثنا تک
تواریخی کتب
یشوع سے آستر تک
نظم
ایوب سے غزل الغزلات تک
نبوتی کتب
یسعیاہ سے ملاکی تک

پرانے عہدنامے کے اِن چاروں حصوں کا علیٰحدہ علیٰحدہ تعارف تفسیر الکتاب میں مناسب مقامات پر پیش کیا جائے گا۔

جس مسیحی ایمان دار کو اِن کتابوں اور نئے عہدنامے کے مکمل مکاشفے پر اچھی طرح عبور حاصل ہو جائے‏، وہ ’’ہر ایک نیک کام کے لئے تیار ہو گا۔‘‘

ہماری دعا ہے کہ تفسیر الکتاب بہت سے ایمان داروں کی مدد کرے کہ وہ نیکی کرنے میں مستعد ہوں۔

۷۔ زبانیں

الف۔ عبرانی

پرانے عہدنامے کا بیشتر حصہ عبرانی زبان میں لکھا گیا۔ لیکن چند ایک حصے ارامی زبان میں بھی لکھے گئے۔ ارامی بھی سامی زبان ہے۔ 

ایمان داروں کے لئے یہ اَمر باعثِ حیرت نہیں ہے کہ خدا نے اپنے کلام کے پہلے حصے کے لئے بالکل ایک موزوں زبان استعمال کی۔ یہ روزمرہ اور محاورے کے لحاظ سے ایک نہایت فصیح زبان ہے اور الہامی بیانات‏، نظم اور شریعت جو پرانے عہدنامے کے مضامین ہیں‏، انہیں اِس زبان نے بڑی خوش اسلوبی سے نباہیا ہے۔ عبرانی ایک بہت ہی قدیم زبان ہے۔ حیرانی کی بات ہے کہ یہی قدیم زُبان موجودہ اِسرائیلی قوم کی روزمرہ کی زبان کے طور پر ازسرِ نو زندہ ہو گئی ہے۔

اُردو کی طرح عبرانی زبان بھی دائیں سے بائیں طرف لکھی جاتی ہے۔ شروع میں یہ عربی کی طرح صرف حروفِ صحیح میں لکھی جاتی تھی۔ قاری بلند آواز سے پڑھتے ہوئے‏، زبان کے علم سے مناسب حروفِ عِلّت کا اِضافہ کرتا۔ خدا کی قدرت ہے کہ عبرانی زبان بہت صدیوں تک قابلِ مطالعہ رہی‏، کیونکہ یہ زیادہ تر حروفِ علّت کی آواز ہے جو صدی بہ صدی‏، ملک بہ ملک اور علاقہ بہ علاقہ تبدیل ہوتی ہے۔ 

بعض الفاظ جیسا کہ خدا کا نام اِس قدر مقدس متصور کیا جاتا کہ اُسے زبان سے ادا کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس کی جاتی۔ چنانچہ حاشیے میں لکھا جاتا کہ بلند آواز سے پڑھا (‏قرأت)‏ جائے۔ یہی حال نقل نویسوں کی غلطیوں اور اُن الفاظ کا تھا جنہیں کئی سو سال بعد عامیانہ تصور کیا گیا۔ 

اِبتدائی صدیوں میں یہودی علما نے مسوراتی (‏عبرانی لفظ روایت سے مشتق)‏ متن ترتیب دیا۔ اِس حقیقت کے پیشِ نظر کہ عبرانی زبان قدیم ہوتی جا رہی ہے‏، اور پرانے عہدنامے کے مقدس متن کی صحیح تلاوت کو محفوظ کرنے کے لئے‏، اُنہوں نے اعراب ایجاد کئے تاکہ عبرانی زبان کے بائیس حروفِ صحیح کے مسلمہ صوتی انداز کو ظاہر کیا جائے حتیٰ کہ آج تک قدیم حروفِ علَت کے نشانات انگریزی‏، فرانسیسی اور جرمن ہجوں سے بھی زیادہ درستی سے مفہوم کو ادا کرتے ہیں۔ 

حروفِ صحیح کا متن متنازعہ قرأت کا باعث رہا ہے‏، کیونکہ بعض اوقات حروفِ صحیح کا کوئی مجموعہ مختلف حروفِ علت کے تحت پڑھا جا سکتا ہے۔ چنانچہ اُن کے معانی بھی مختلف ہو جاتے۔ عموماً سیاق و سباق سے اصل متن کا تعین کیا جا سکتا ہے‏، لیکن ہمیشہ ایسا ممکن نہیں ہوتا۔ تواریخ کی کتب میں کئی ناموں کے ہجے (‏تفسیر ملاحظہ فرمائے)‏ پیدائش کی کتاب سے مختلف ہیں۔ دراصل یہ کسی حد تک اِسی وجہ سے ہے۔ 

تاہم روایتی یا مسوراتی متن کو بہت خوبصورت طریقے سے محفوظ کیا گیا ہے۔ یہ خدا کے کلام کے لئے یہودیوں کی تعظیم کے لئے ایک واضح شہادت ہے۔ اکثر قدیم تراجم (‏تارگوم‏، ہفتادہ اور ولگاتا)‏ جہاں بھی کوئی مسئلہ درپیش آئے تویہ صحیح قرأت کے اِنتخاب میں ہماری مدد کرتے ہیں۔ بیسویں صدی کے نصف میں بحیرۂ مردار کے طوماروں نے عبرانی متن‏، خصوصی طور پر مسوراتی متن کی صحت اور تصدیق کے لئے کافی معلومات فراہم کی ہیں۔

ب۔ ارامی

عبرانی کی طرح‏، ارامی بھی سامی زبان ہے۔ لیکن یہ غیر قوموں کی زبان ہے‏، جو قدیم دُنیا میں وسیع علاقوں میں کئی صدیوں تک بولی جاتی تھی۔ چونکہ عبرانی زبان متروک اور غیر مروجہ زبان بن چکی تھی‏، اِس لئے پرانے عہدنامے کا ارامی زبان میں ترجمہ کیا گیا‏، جو عبرانی سے ملتی جلتی‏، لیکن اُس سے مختلف تھی۔ اِس زبان کو اُنہیں اپنانا پڑا۔ جو رسم الخط عبرانی زبان کا ہے‏، اُسے غالباً ۴۰۰ ق م میں ارامی زبان سے لیا گیا۔ اور اُنہیں بڑے فنکارانہ طور پر مربع شکل حروف میں ترتیب دیا جس سے ہم دورِ حاضر میں واقف ہیں۔ 

عبرانی زبان سے متعلق مذکورۂ بالا اکثر حقائق‏، پرانے عہدنامے کے ارامی حصوں پر بھی صادق آتے ہیں۔ یہ چند ایک پارے ہیں‏، اور اکثر اِن کا اسرائیل کے غیر قوم پڑوسیوں مثلاً بابلی اسیری کے دوران اور بعد کے دَور سے تعلق ہے۔