نئے عہدنامہ کا اناجیل کا تعارُف

اناجیل کا تعارُف

«اناجیل تمام تحریروں کے پہلے پھل ہیں۔»  (اورغین)

۱۔پُرجلال اناجیل

 ادب کا ہر طالب علم ادب کی مختلف اصناف مثلاً داستان،‏ کہانی،‏ ناول،‏ ڈرامہ،‏ نظم،‏ سوانحِ حیات وغیرہ سے بخوبی واقف ہے۔ مگر جب ہمارا خداوند یسوع مسیح اِس دُنیا میں آیا تو ادب میں ایک بالکل نئی صنف کی ضرورت تھی جس کو اِنجیل بمعنی خوش خبری کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اناجیل سوانحِ عمریاں نہیں ہیں،‏ اگرچہ اِن میں بہت سا مواد سوانحِ عمری کے زُمرے میں آتا ہے۔ نہ وہ داستان اور کہانی ہیں،‏ اگرچہ مسرف بیٹے اور نیک سامری جیسی تمثیلیں ادب کی کسی بھی کہانی کی طرح دلچسپ اور دِلکش ہیں۔ یہاں تک کہ بعض تمثیلوں میں تصرف کر کے اُن کو ناول اور افسانے کی صورت میں بھی لکھا گیا ہے۔ یہ اناجیل دستاویزی رپورٹیں بھی نہیں ہیں،‏ حالانکہ اِن میں ہمارے خداوند کی مختلف مواقع پر گفتگو اور مباحث کو پوری صحت مگر اِختصار کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔

 نہ صرف «اِنجیل» ادب کی ایک بے مثال اور یکتا صنف ہے بلکہ چاروں انجیل نویسوں یعنی متی،‏ مرقس،‏ لوقا اور یوحنا نے جب یہ اناجیل قلم بند کیں تو کسی کتاب یا ادب پارے کو مستند قرار دینے کا معیار ہی بدل گیا۔ راسخ العقیدہ مسیحی گذشتہ تقریباً دو ہزار سال سے چار اِناجیل اور صرف اِن ہی چار اناجیل کو مستند مانتے آ رہے ہیں۔ کئی بدعتی افراد نے بھی کتابیں لکھیں اور اُن کو اِنجیل کا نام دیا،‏ مگر وہ صرف کسی بدعت مثلاً غناسطیت یا عرفانیت کو بڑھانے اور پھیلانے کا گھٹیا وسیلہ تھیں اور بس۔

 اناجیل چار ہی کیوں ہیں؟ پانچ کیوں نہیں تاکہ موسیٰ کی پانچ کتابوں کے مقابلے میں ایک مسیحی اَسفارِ خمسہ بن جاتیں؟ یا ایک ہی طویل اِنجیل کیوں نہیں جس میں جتنی باتیں دُہرائی گئی ہیں وہ چھوڑ دی جاتیں اور مزید تمثیلوں اور معجزات کو شامل کرنے کی جگہ بن جاتی؟ دراصل ان چاروں کو ہم آہنگ کرنے کی کوششیں تو ہوتی رہی ہیں۔ دوسری صدی عیسوی میں ططیان نے Diatessaron (یونانی «چار میں سے») لکھ کر ایسی ہی کوشش کی تھی۔

 ارینیئس کا نظریہ یہ تھا کہ چار اِنجیلیں دُنیا کے چار رُبعوں (رُبع = ایک چوتھائی) یا چار سمتوں اور چار ہواؤں سے مطابقت رکھتی ہیں،‏ اِس لئے کہ «چار» عالم گیریت کا عدد ہے۔

۲۔ چار علامات

 بہت سے لوگ خصوصاً جمالیاتی ذہن رکھنے والے افراد حزقی ایل اور مکاشفہ کی چار علامات کے ساتھ اناجیل کی مطابقت کو بڑی تحسین کی نظروں سے دیکھتے ہیں۔ یہ علامتیں ہیں شیر ببر،‏ سانڈ (بچھڑا)،‏ اِنسان اور عقاب۔ مگر مختلف مسیحیوں نے اِن کو مختلف ترتیب سے اناجیل کے مشابہ ٹھہرایا ہے۔ ادب میں اِن علامات کو «صفاتِ نسبتی» کہا جاتا ہے۔ اگر انہیں اناجیل کی علامتیں سمجھنا صحیح ہے تو ببر شیر متی کی اِنجیل کے لئے موزُوں ہے جو کہ یہوداہ کے ببر کی شاہی اِنجیل ہے۔ بیل،‏ محنت اور بوجھ اُٹھانے والا جانور،‏ مرقس سے مناسبت رکھتا ہے کہ یہ مسیح کو خادم کے طور پر پیش کرتی ہے۔ اِنسان بے شک لوقا کی مرکزی علامت ہے کہ یہ «ابنِ آدم» کی انجیل ہے اور عقاب یوحنا کی اِنجیل کا نشان ہے کیونکہ یہ اِنجیل بلند و بالا اور ارفع و اعلیٰ رُوحانی رُؤیا کی اِنجیل ہے۔

۳۔ چار قسم کے قارئین

 اناجیل چار کیوں ہیں؟ اِس سوال کا بہترین جواب یہ ہے کہ روح القدس چار مختلف قسم کے لوگوں کو تعلیم دے رہا ہے۔ لوگوں کے چار مختلف قدیم گروہ جن کی نظیر آج بھی موجود ہے۔

 سارے اتفاق کرتے ہیں کہ متی سب سے زیادہ یہودی اِنجیل ہے۔ اِس میں پرانے عہدنامے سے اِقتباسات،‏ خداوند مسیح کے تفصیلی مباحث،‏ خداوند کا نسب نامہ اور عام سامی لب و لہجہ تو نئے قاری کو بھی نمایاں طور پر محسوس ہونے لگتا ہے۔

 مرقس نے اِنجیل غالباً سلطنت ِروم کے شاہی دارالحکومت میں بیٹھ کر لکھی۔ اُس کے پیشِ نظر رومی اور اِسی قسم کے لاکھوں وہ لوگ تھے جو خیالات کی نسبت عمل و حرکت کو زیادہ پسند کرتے ہیں۔ اِسی وجہ سے اُس نے تمثیلوں پر کم اور معجزات پر زیادہ توجہ دی ہے۔ اِس اِنجیل میں نسب نامے کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ کون سا رومی ہے جو سرگرم اور فعال خادم کے سامنے یہودی نسب ناموں پر توجہ دے گا؟

 صاف نظر آتا ہے کہ لوقا نے اپنی اِنجیل یونانیوں اور بے شمار اُن رومی لوگوں کے لئے لکھی جو یونانی ادب و فنون کو پسند کرتے اور اُس میں سبقت لے جانے کی کوشش کرتے تھے۔ ایسے لوگ حُسن و خوبصورتی،‏ اِنسانیت،‏ ثقافتی انداز،‏ سُلجھے ہوئے اُسلوب اور ادبی فضیلت پر جان دیتے ہیں۔

 تو یوحنا نے کن لوگوں کے لئے لکھا؟ یوحنا کی اِنجیل عالم گیر اِنجیل ہے۔ اُس میں ہر کسی کے لئے کچھ نہ کچھ موجود ہے۔ یہ تبلیغی اِنجیل ہے (۲۰:‏ ۳۰،‏‏۳۱) اور گہرا غور و فکر کرنے والے مسیحی بھی اِسے دل سے چاہتے ہیں۔ غالباً کلید اِس بات میں ہے کہ «یوحنا کی اِنجیل تیسری نسل کے لوگوں کے لئے ہے۔» اُس زمانے کے بت پرست لوگوں نے مسیحیوں کو «تیسری نسل» کا لقب دیا تھا کہ یہ نہ یہودی تھے،‏ نہ بت پرست۔

۴۔ دیگر خصوصیات

 پرانے عہدنامے میں کچھ دیگر چہار گُونہ خصوصیات ہیں جو چاروں اناجیل میں بھی جگہ جگہ بکھری ہوئی نظر آتی ہیں۔

 ہمارے خداوند کا ایک لقب «شاخ» ہے جو مندرجہ ذیل سیاق و سباق میں موجود ہے:‏

 «… داؤد کے لئے ایک صادق شاخ … خداوند ہماری صداقت» (یرمیاہ ۲۳:‏ ۵،‏۶)۔

 «… مَیں اپنے بندہ یعنی شاخ کو لانے والا ہوں» (زکریاہ ۳:‏۸)۔

 «… وہ شخص جس کا نام شاخ ہے …» (زکریاہ ۶:‏۱۲)۔

 «… خداوند کی طرف سے روئیدگی (شاخ) …» (یسعیاہ ۴:‏۲)۔

 پرانے عہدنامے میں چار دفعہ «دیکھ» آیا ہے جو اناجیل کے مرکزی موضوعات سے بالکل مطابقت رکھتا ہے۔

 «دیکھ تیرا بادشاہ» (زکریاہ ۹:‏۹)۔ (متی)

 «دیکھو میرا خادم» (یسعیاہ ۴۲:‏۱)۔ (مرقس)

 «دیکھ وہ شخص» (زکریاہ ۶:‏۱۲)۔ (لوقا)

 «دیکھو اپنا خدا» (یسعیاہ ۴۰:‏۹)۔ (یوحنا)

 ایک اَور مطابقت بھی ہے جو اگرچہ اِتنی نمایاں اور واضح تو نہیں،‏ لیکن بہتوں کے لئے باعث ِبرکت ثابت ہوئی ہے۔ خیمۂ اِجتماع کو بنانے میں جو کپڑے وغیرہ اِستعمال ہوئے،‏ اُن کے چار رنگ تھے اور ہر رنگ علامتی مفہوم رکھتا تھا۔ اِنجیل نویسوں نے بھی ہمارے خداوند کی چار صفات کو پیش کیا ہے۔ یہ چاروں رنگ اِن چاروں صفات سے مطابقت رکھتے ہیں۔

 اَرغوانی رنگ:‏ متی کی اِنجیل سے مطابقت رکھتا ہے کہ وہ خداوند کو «بادشاہ» کے طور پر پیش کرتی ہے۔ قضاۃ ۸:‏۲۶ سے اِس رنگ کی اہمیت کا پتا چلتا ہے۔

 قرمزی رنگ:‏ قدیم زمانے میں یہ رنگ ایک قسم کے قرمزی کیڑے کو کچل کر حاصل کیا جاتا تھا۔ یہ رنگ مرقس کی اِنجیل کے ساتھ مناسبت رکھتا ہے جو یسوع کو «خادِم» کے طور پر پیش کرتی ہے۔ زبور ۲۲:‏۶ میں زبور نویس کہتا ہے کہ « مَیں تو کیڑا ہوں،‏ اِنسان نہیں۔»

 سفید رنگ:‏ مقدس لوگوں کی راست بازی کے کاموں کو ظاہر کرتا ہے (مکاشفہ ۱۹:‏ ۸)۔ یہ رنگ لوقا کی اِنجیل سے مناسبت رکھتا ہے کیونکہ وہ مسیح کی کامل بشریت کو پیش کرتی ہے۔

 نیلا رنگ:‏ اُس نیلگوں گنبد کی نمائندگی کرتا ہے جسے ہم آسمان کہتے ہیں (خروج ۲۴:‏۱۰)۔ یہ رنگ مسیح کی کامل الوہیت کا مظہر ہے اور یوحنا کی اِنجیل سے مناسبت رکھتا ہے۔

۵۔ ترتیب اور اہمیت

 اناجیل میں واقعات کا بیان اِن کے وقوع پذیر ہونے کی ترتیب کے مطابق نہیں ہے۔ ہمیں شروع ہی سے ذہن نشین رکھنا چاہئے کہ خدا کا روح اکثر واقعات کو اِن کی اخلاقی تعلیم اور اہمیت کے لحاظ سے یک جا کرتا ہے۔ کیلی (Kelly)کہتا ہے کہ:‏

«جیسے جیسے ہم آگے بڑھیں گے ثابت ہوتا جائے گا کہ لوقا نے بنیادی طور پر اخلاقی ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے۔ وہ واقعات،‏ خداوند کی بات چیت،‏ سوالات اور جوابات اور مباحث کو خارجی ترتیب کے لحاظ سے یک جا نہیں کرتا بلکہ باطنی تعلق کو پیشِ نظر رکھتا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ واقعات وغیرہ کی خارجی اور تواریخی ترتیب کو ملحوظ رکھنے سے مصنف کی ناپختگی اور بچگانہ پن کا اِظہار ہوتا ہے۔ مگر مؤرِخ کے لئے واقعات کو اسباب و نتائج کے اعتبار سے اور اخلاقی ترتیب کے مطابق یکجا کرنا مشکل ہوتا ہے کیونکہ مورِخ کا کام واقعہ نویس سے مختلف ہوتا ہے۔ خدا نے اِس کارِخیر کے لئے لوقا کو استعمال کیا۔ اُس نے یہ کام نہایت احسن طریقے سے سرانجام دیا ہے۔»

 اناجیل میں بظاہر اِختلافات اِس لئے نظر آتے ہیں کہ وہ مختلف باتوں پر زور دیتی ہیں اور اِن کا اندازِ ابلاغ الگ الگ ہے۔ پہلی تینوں اناجیل کو «اناجیلِ متوافقہ» (مشترکہ نقطۂ نظر رکھنے والی) کہا جاتا ہے۔ مسیح کی زندگی کے بیان میں اُن کے انداز میں ایک مشابہت پائی جاتی ہے،‏ جب کہ یوحنا کی اِنجیل فرق ہے۔ یوحنا نے اِنجیل بعد میں لکھی۔ لہٰذا وہ پہلے بیان شدہ باتوں کو دُہرانا نہیں چاہتا تھا۔ اُس نے ہمارے خداوند کی زندگی اور کلام کو نہایت مفکرانہ انداز میں اور علِم الٰہی کے نکات کے ساتھ پیش کیا ہے۔

۶۔ مسئلۂ توافق

 پہلی تینوں اناجیل میں بہت سی مشابہات پائی جاتی ہیں،‏ یہاں تک کہ کئی عبارتیں تقریباً لفظ بہ لفظ ایک دوسری سے ملتی ہے۔ اس کے باوجود بے شمار اِختلافات بھی موجود ہیں،‏ اِن مشابہات اور اِختلافات کے مسئلے کو «مسئلۂ توافُق» کہا جاتا ہے۔ راسخ العقیدہ مسیحیوں کے لئے تو یہ کوئی مسئلہ نہیں،‏ البتہ جو لوگ اِلہام کے منکر ہیں اُن کے لئے بڑا مسئلہ ہے۔ اُنہوں نے اِس سلسلے میں کئی پیچیدہ نظریات وضع کر لئے ہیں۔ وہ اکثر قیاسی دستاویزات کا حوالہ دیتے ہیں جن کا آج نام و نشان تک موجود نہیں۔ ان کی چند ایک باتیں لوقا ۱:‏ ۱ کی روشنی میں قابلِ تصور ہیں اور راسخ العقیدہ نظریات سے ٹکر نہیں کھاتیں۔ تاہم ان کے بعض نظریات اِس قدر غلط ہیں کہ اگر اُنہیں مان لیا جائے تو نتیجہ یہ نکلے گا کہ اِبتدائی کلیسیا نے یسوع مسیح کے بارے میں «دیومالائی» کہانیوں کو اِکٹھا کر لیا ہے۔ اِس طرح کی نکتہ چینی مسیحی صحائف اور تاریخِ کلیسیا سے بے وفائی کی مرتکب ہوتی ہے۔ یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ کوئی ایسا دستاویزی ثبوت بھی موجود نہیں جسے وہ اپنے دعوے کی تائید میں پیش کر سکیں۔ مزید براں کوئی دو علما بھی ایسے نہیں جو اِس بات پر متفق ہوں کہ اناجیلِ متوافقہ کی زُمرہ بندی اور تقسیم کس طرح کی جائے۔

 اِس مسئلے کا ایک بہت عمدہ حل یوحنا ۱۴:‏ ۲۶ میں ہمارے خداوند کے الفاظ میں موجود ہے کہ «لیکن مددگار یعنی روح القدس جسے باپ میرے نام سے بھیجے گا وہی تمہیں سب باتیں سکھائے گا اور جو کچھ مَیں نے تم سے کہا ہے،‏ وہ سب تمہیں یاد دلائے گا۔»

 اِس سے متی اور یوحنا کے آنکھوں دیکھے وقائع کی وضاحت ہو جاتی ہے اور غالباً مرقس کو بھی اِس میں شامل کیا جا سکتا ہے اگر جیسا کہ تاریخِ کلیسیا کہتی ہے اُس نے پطرس کی یادداشتوں کو قلم بند کیا ہے۔ اِس میں روح القدس کی بلاواسطہ مدد،‏ وہ دستاویزات جن کا ذکر لوقا ۱:‏۱ میں ہے اور سامی لوگوں کی سینہ بہ سینہ منتقل ہونے والی بالکل صحیح روایات کو شامل کریں تو «مسئلہ توافُق» کا جواب مل جاتا ہے۔ اِن کے علاوہ جتنی بھی بنیادی سچائیاں،‏ تفاصیل یا تشریحات ہیں،‏ وہ روح القدس نے براہِ راست «اُن الفاظ میں جو روح القدس نے سکھائے» (۱۔کرنتھیوں ۲:‏۱۳) عطا کیں۔

 اِس لئے جب ہمیں کسی تفصیل میں بظاہر کوئی تضاد یا فرق نظر آئے تو اچھا ہو گا کہ ہم کھوج لگائیں کہ متعلقہ اِنجیل نے فلاں واقعہ یا بات کو کیوں چھوڑ دیا،‏ یا شامل کیا یا اِس پر کیوں زور دیا ہے؟ مثال کے طور پر متی دو دفعہ دو اشخاص کے (اندھے پن اور بدروح سے) شفا پانے کا ذکر کرتا ہے جب کہ مرقس اور لوقا صرف ایک ایک کا۔ بعض لوگوں کو اِس میں تضاد نظر آتا ہے۔ بہتر ہے کہ ہم اِسے اِس طور سے دیکھیں کہ متی نے اِنجیل یہودیوں کے لئے لکھی اِس لئے دو اشخاص کا ذکر کیا کیونکہ شریعت کا تقاضا ہے کہ گواہوں کی تعداد دو یا تین ہو جب کہ دوسروں نے صرف مشہور شخص (اندھے برتمائی) کا ذکر کیا ہے۔

 ہم یہاں چند اِقتباسات دے رہے ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ جو باتیں بظاہر دُہرائی گئی ہیں،‏ وہ اہم فرق کو واضح کرتی ہیں۔

 لگتا ہے کہ لوقا ۶:‏۲۰-‏۲۳ میں پہاڑی وعظ کو دُہرایا گیا ہے۔ لیکن دراصل یہ وعظ ایک میدان (ہموار جگہ) میں کیا گیا تھا (لوقا ۶:‏۱۷)۔ مبارک بادیاں خدا کی بادشاہی کے مثالی شہری کی خصوصیات بیان کرتی ہیں جب کہ لوقا مسیح کے شاگردوں کے طرزِ زندگی کی نشاندہی کرتا ہے۔

 لگتا ہے کہ لوقا ۶:‏۴۰ میں متی ۱۰:‏۲۴ کو دُہرایا گیا ہے۔ لیکن متی میں یسوع مالک ہے اور ہم اُس کے شاگرد ہیں۔ جب کہ لوقا میں شاگرد بنانے والا شخص مالک ہے،‏ جب کہ جس کو وہ تعلیم دیتا ہے،‏ وہ شاگرد ہے۔ متی ۷:‏۲۲ میں «بادشاہ» کی خدمت پر زور دیا گیا ہے جب کہ لوقا ۱۳:‏ ۲۵-‏۲۷ میں مالک کے ساتھ رفاقت رکھنے کا ذکر ہے۔

 لوقا ۱۵:‏ ۴-‏۷ میں بڑے چبھتے ہوئے انداز میں فریسیوں کی فضیحت کی گئی ہے۔ جب کہ متی ۱۸:‏ ۱۲،‏۱۳ میں بچوں اور اُن کے لئے خدا کی محبت کا بیان ہے۔

 جب حاضرین میں صرف ایمان دار موجود تھے تو یوحنا اِصطباغی نے کہا «وہ تم کو روح القدس سے بپتسمہ دے گا» (مرقس ۱:‏۸؛ یوحنا ۱:‏۳۳)۔ اور جب ملی جلی بھیڑ اور خصوصاً فریسی موجود تھے تو اُس نے کہا کہ «وہ تم کو روح القدس اور آگ (غضب) سے بپتسمہ دے گا» (متی ۳:‏۱۱؛ لوقا ۳:‏ ۱۶)۔

 «جس پیمانہ سے تم ناپتے ہو» اِن الفاظ کا متی ۷:‏۲ میں ہمارے عیب جوئی کے رویے پر،‏ مرقس ۴:‏۲۴ میں خدا کے کلام کو قبول کرنے پر اور لوقا ۶:‏۳۸ میں ہماری سخاوت اور فراخ دلی پر اِطلاق ہوتا ہے۔

 چنانچہ یہ اِختلافات تضاد نہیں ہیں۔ اِن کا ایک مقصد ہے اور غور و فکر کرنے والے ایمان دار کے لئے یہ روحانی خوراک ہیں۔

۷۔ نئے عہدنامے کی کتابوں کے مصنفین

 بائبل مقدس کی کسی کتاب کے مصنف کو معلوم کرتے وقت شہادتوں کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ اوّل بیرونی شہادتیں۔ دوم اندرونی شہادتیں۔ نئے عہدنامے میں ستائیس کتابیں شامل ہیں۔ اِن کے مصنفین پر بحث کرتے ہوئے ہم بھی اِسی اصول کی پیروی کریں گے۔ بیرونی یا خارجی شہادتوں کے ضمن میں اُن مصنفین کا حوالہ دیا جاتا ہے جو کتابوں کی تصنیف کے زمانے کے قریب ترین دَور میں موجود تھے۔ اِن میں عموماً دوسری اور تیسری صدی عیسوی کے «آبائے کلیسیا» شامل ہیں۔ اِن کے علاوہ چند بدعتی یا جھوٹے اُستادوں کا بھی حوالہ دیا جاتا ہے۔ اِن افراد نے بائبل مقدس کی کتابوں سے اِقتباس دیئے ہیں یا اِن کا حوالہ دیا ہے،‏ یا خصوصیت سے اِن کتابوں اور مصنفوں کا بیان کیا ہے جن سے ہم دلچسپی رکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر روم کا کلیمنٹ (Clement) پہلی صدی عیسوی کے اواخر میں کرنتھیوں کے پہلے خط کا اِقتباس کرتا ہے۔ تو صاف ظاہر ہے کہ یہ خط دوسری صدی عیسوی میں پولس کے نام سے لکھی ہوئی جعلی کتاب نہیں ہو سکتی۔ اندرونی یا داخلی شہادتوں میں ہم کتاب کے اُسلوبِ بیان،‏ ذخیرۂ الفاظ اور مواد پر توجہ دیتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ یہ باتیں اُن دعوؤں کی تائید یا تردید کرتی ہیں جو بیرونی دستاویزات اور مصنفین نے کئے ہیں۔ مثال کے طور پر لوقا کی اِنجیل اور اعمال کا اُسلوبِ بیان اِس نظریے کی حمایت کرتا ہے کہ اِن کا مصنف کوئی صاحب ِذوق اور تعلیم یافتہ غیر قوم طبیب تھا۔

 بہت سی کتابوں میں دوسری صدی کے ایک بدعتی شخص بنام مارقیون کی مرتب کردہ «مسلمہ» کتب کی فہرست درج ہے۔ اُس نے لوقا کی اِنجیل کو بہت کانٹ چھانٹ کے ساتھ اور پولس کے صرف دس خطوط کو تسلیم کیا ہے۔ تو بھی وہ اِس بات میں معاون گواہ ثابت ہوتا ہے کہ اُس کے زمانے میں کون کون سی کتابیں معیاری مانی جاتی تھیں۔ مورا توروی فہرست ِمسلّمہ (موسوم بہ اطالوی کارڈینل موراتوروی جس کو یہ دستاویزات ملی تھی) گو قدرے نامکمل ہے تو بھی اُس میں اِن کتب کا ذکر ہے جنہیں راسخ العقیدہ مسیحیوں نے قبول کیا ہوا تھا۔