نئے عہدنامہ کا تعارُف
«نئے عہدنامہ کی کُتب تواریخی بھی ہیں اور روحانی بھی۔ مگر اِن کی قدر و قیمت اِن کی تعداد اور طوالت سے کہیں زیادہ ہے اور تاریخ اور زندگی پر اِن کے اثرات کا تو اندازہ لگانا بھی ممکن نہیں۔ جو دن عدن میں طلوع ہوا تھا وہ اَب اپنے نقطۂ عروج کو پہنچا ہے۔ پُرانے عہدنامہ کی نبوت کا مسیح نئے عہدنامہ میں تاریخ کا مسیح بن گیا ہے۔ خطوط میں وہ تجربہ کا مسیح اور مکاشفہ میں جلال کا مسیح بن جاتا ہے۔» (ڈبلیو۔ گراہم سکروگی ۔ W. Graham Scroggie)
۱۔ نئے عہدنامہ کی وجۂ تسمیہ
نئے عہدنامہ کی گہرائیوں میں اُترنے سے پہلے، بلکہ اِس کی کسی خاص کتاب کے محدود علاقے کے تفصیلی مطالعے سے بھی پہلے، بہتر اور مفید ہو گا کہ اِس مُقدس کتاب کے بارے میں عام حقائق کا ایک مختصر خاکہ پیش کر دیا جائے۔
«عہد» یونانی لفظ diatheke کا ترجمہ ہے۔ بائبل مُقدس کے دو حصوں کو پُرانا عہدنامہ اور نیا عہدنامہ یا عہدِ عتیق اور عہدِ جدید کہنا عین مناسب ہے کیونکہ یہ کتاب خدا اور اُس کی اُمت کے درمیان ایک «معاہدہ»، ایک «اِتحاد» یا «عہد» کی قانونی حیثیت رکھتی ہے۔
دونوں عہدنامے خدا کے اِلہام سے تحریر ہوئے، اِس لئے مسیحیوں کے لئے دونوں ہی یکساں طور پر فائدہ مند ہیں۔ لیکن مسیح پر ایمان رکھنے والا شخص فطری طور پر بائبل مُقدس کے اُس حصے کی طرف زیادہ رجوع کرے گا جو خاص طور پر اُس کے خداوند اور خداوند کی کلیسیا کا بیان کرتا اور یہ بتاتا ہے کہ اُس کے شاگرد کو کس طرح زندگی بسر کرنی چاہئے۔
اوگسطین نے پُرا نے عہدنامہ اور نئے عہدنامہ کے باہمی تعلق کو بہت عمدگی سے یوں بیان کیا ہے:
نیا پرانے میں پوشیدہ ہے۔ پرانا نئے میں آشکارا ہے۔
۲۔ نئے عہدنامہ کی فہرست ِمسلّمہ
کلیسیائی حلقوں میں جب لفظ فہرست ِمُسلّمہ اِستعمال کئے جاتے ہیں تو دراصل یونانی لفظ kanon کے مفہوم میں استعمال کئے جاتے ہیں، جس کا مطلب ہے وہ «قاعدہ» یا «قانون» جس کے مطابق کسی چیز کی قدر و قیمت یا معیار کا تعین کیا جاتا ہے۔ نئے عہدنامہ کی فہرست ِمسلّمہ اِلہامی کتابوں کا مجموعہ ہے۔ ہمیں کس طرح علم ہوا کہ صرف یہی کتابیں اِس فہرست میں ہونی چاہئیں؟ بدعتی تحریریں بھی تو اِبتدائی دَور ہی سے موجود تھیں۔ چنانچہ ہمیں کیسے یقین ہوا کہ یہی کتابیں درست ہیں؟
اکثر کہا جاتا ہے کہ ایک کلیسیائی کونسل نے چوتھی صدی کے اواخر میں ایک فہرست ِمُسلّمہ یعنی مستند کتابوں کی فہرست مرتب کی۔ لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ یہ کتابیں جب لکھی گئیں تو اُسی وقت «مستند» تھیں۔ خدا پرست اور روحِ اِمتیاز رکھنے والے شاگرد شروع ہی سے اِلہامی صحائف کو تسلیم کرتے آئے ہیں جیسے کہ پطرس نے پولس کی تحریروں کو تسلیم کیا (۲۔پطرس ۳: ۱۵،۱۶)۔ البتہ چند ایک کتابوں کے بارے میں (مثلاً یہوداہ کا خط، یوحنا کا دوسرا اور تیسرا خط) بعض کلیسیاؤں میں کچھ عرصے تک اِختلافِ رائے موجود رہا۔
عام طور سے اگر کتاب کسی شاگرد مثلاً متی، پطرس، یوحنا یا پولس کی تصنیف ہوتی، یا رسولی حلقے میں سے کسی کی مثلاً مرقس یا لوقا کی تو اُس کے مستند ہونے پر کوئی شک نہیں ہوتا تھا۔
جس کونسل نے موجودہ کتابوں کو مستند قرار دیا، دراصل اُس نے اُن کتابوں کی تصدیق کی جو برسوں سے مُسلَّمہ چلی آ رہی تھیں۔ کونسل نے کتابوں کی کوئی اِلہامی فہرست نہیں، بلکہ الہامی کتابوں کی فہرست مرتب کی تھی۔
۳۔ مصنف
نئے عہدنامہ کا الٰہی مصنف روح القدس ہے۔ اُس نے متی، مرقس، لوقا، یوحنا، پولس، یعقوب، پطرس، یہوداہ اور عبرانیوں کے گمنام مصنف (عبرانیوں کا تعارُف ملاحظہ کریں) کو لکھنے کی تحریک دی۔ نئے عہدنامے کی اِن کتابوں کے معرضِ وجود میں آنے کے سوال کو صحیح اور عمدہ طور سے سمجھنے کے لئے بہترین جواب یہی ہے کہ «دو مصنفین» ہیں۔ نیا عہد نامہ جزوی طور پر اِنسانی اور جزوی طور پر الٰہی کتاب نہیں، بلکہ بیک وقت کُلی طور پر اِنسانی اور کُلی طور پر الٰہی تصنیف ہے۔ الٰہی عنصر نے اِنسانی عنصر کو غلطی کرنے سے بچائے رکھا اور نتیجہ ایک بے نقص اور ہر قسم کی غلطی سے پاک قلمی نسخہ تھا۔
تحریری کلام کی ایک مفید اور مددگار مثال زندہ کلام یعنی ہمارا خداوند یسوع مسیح ہے۔ وہ جزوی طور پر بشر اور جزوی طور پر خدا نہیں ہے (جیسے یونانی / ہندو دیوتا ہوتے ہیں) بلکہ بیک وقت کُلی طور پر بشر اور کُلی طور پر خدا ہے۔ الٰہی ذات نے بشری ذات کے لئے غلطی یا گناہ کرنا ناممکن بنا دیا۔
۴۔ تاریخِ تصنیف
پُرانے عہدنامہ کی تکمیل میں تقریباً ایک ہزار سال (تقریباً ۱۴۰۰ _ ۴۰۰ ق م) لگ گئے۔ اِس کے برعکس نیا عہدنامہ صرف نصف صدی (تقریباً ۵۰ _ ۱۰۰ء) میں مکمل ہو گیا۔
نئے عہدنامہ میں کتابوں کی موجودہ ترتیب ہر زمانے کی کلیسیا کے لئے موزوں ہے۔ اِس کا آغاز مسیح کی زندگی کے بیان سے ہوتا ہے۔ پھر کلیسیا کی اِبتدا اور ارتقا کا بیان ہے۔ اِس کے بعد کلیسیا کے لئے ہدایات ہیں اور آخر میں کلیسیا اور دُنیا کے مستقبل کا مکاشفہ ہے۔ لیکن یہ ترتیب کتابوں کے سنِ تصنیف کے مطابق نہیں۔ یہ کتابیں ضرورت کے مطابق لکھی گئیں۔
پہلے وہ خطوُط قلم بند ہوئے جن کو فلپس «نوعمر کلیسیاؤں کے نام مراسلات» کا نام دیتا ہے۔ غالباً سب سے پہلے یعقوب، گلتیوں اور تھسلنیکیوں کے خط پہلی صدی عیسوی کے تقریباً وسط میں لکھے گئے تھے۔
تحریر میں آنے کی ترتیب کے لحاظ سے اگلے نمبر پر اناجیل ہیں۔ سب سے پہلے متی یا مرقس کی اِنجیل، اُس کے بعد لوقا کی اور سب سے آخر میں یوحنا کی اِنجیل ضبطِ تحریر میں آئی۔ اور سب سے آخر میں یعنی پہلی صدی عیسوی کے اواخر میں مکاشفہ کی کتاب رقم ہوئی۔
۵۔ موضوعات
نئے عہدنامے کے موضوعات کا مختصر خاکہ یوں پیش کیا جا سکتا ہے:
تواریخی کتب | |
اناجیل | |
اعمال | |
خطوط | |
پولس کے خطوط | |
عام خطوط | |
مکاشفہ | |
مکاشفہ |
جو مسیحی اِن کتابوں کو اچھی طرح جان اور سمجھ لیتا ہے، «وہ ہر نیک کام کے لئے تیار ہو گا» (۲۔تیمتھیس۲:۲۱)۔ ہماری دعا ہے کہ «تفسیر الکتاب» سارے ایمان داروں کے لئے ایسا کرنے میں زبردست مددگار ثابت ہو۔
۶۔ زُبان
نیا عہدنامہ روزمرہ کی زُبان میں (جسے koine یا «عام یونانی» کہا جاتا ہے) لکھا گیا تھا۔ پہلی صدی عیسوی کے دوران یہ تقریباً عالم گیر زبان تھی۔ یہ دُور و نزدیک ایسے ہی جانی پہچانی اور استعمال ہوتی تھی جیسے آج کل انگریزی زُبان ہو رہی ہے۔
جس طرح عبرانی زُبان کا جوشیلا اور رنگارنگ اُسلوب پُرانے عہدنامہ کی نبوت، شاعری اور حکایت و روایت کے لئے بے حد موزُوں تھا، اِسی طرح خدا نے یونانی زُبان کو نئے عہدنامہ کے لئے معجزانہ طور پر تیار کر دیا تھا۔ سکندرِاعظم کی فتوحات کے باعث یونانی زُبان دُور دراز تک پھیل گئی تھی۔ اُس کے فوجیوں نے اِس زُبان کو سادگی عطا کی اور عوام میں مقبول بنا دیا تھا۔
نئے عہدنامہ کے خطوط اور خصوصاً رُومیوں کے خط میں عقیدے سے متعلق اہم سچائیوں کا بیان ہے۔ یونانی زُبان اپنے افعال کی تصریف اور گردان، اِسم کی مختلف حالتوں، ذخیرۂ الفاظ اور دیگر خصوصیات میں صحت و دُرستی کے باعث اِن اہم سچائیوں کے ابلاغ کے لئے بہت ہی مثالی زُبان ہے۔
اگرچہ koine یعنی «عام یونانی» اعلیٰ ادبی زُبان نہیں، لیکن «گلی محلے» والی ادنیٰ زُبان بھی نہیں۔ نئے عہدنامہ کے بعض حصے — عبرانیوں، یعقوب، ۲۔پطرس — اُسلوب کے لحاظ سے یقینا ادبی سطح تک پہنچے ہوئے ہیں۔ کہیں کہیں لوقا بھی کلاسیکی معیار کو چھو رہا ہے۔ اور بعض مقامات پر پولس کے ہاں نہایت موزُوں خوبی اور حُسن ہے (مثلاً ۱۔کرنتھیوں باب ۱۳ اور ۱۵ وغیرہ)۔
۷۔ اُردو زُبان میں ترجمہ
تفصیلات کے لئے دیکھئے «قاموس الکتاب» مرتبہ ڈاکٹر خیر اللہ۔ «بائبل مُقدس » کے عنوان کے تحت دیکھئے۔